عورتوں کے حقوق کی نام نہاد عالمی جنگ ۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
سوچا کیوں نہ عورت کے حقوق پر بات کر لی جائے ہر بار بلکہ ہر روز کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی جگہ سے یہ آواز ضرور سنائی دیتی ھے کہ……
عورت کے حقوق کہاں ھیں۔۔۔۔۔!!!
عورت کو تو کوئی حق ہی نہیں ملتا۔۔۔۔!!!
عورت کے حقوق کھائے جا رہے ہیں۔۔۔۔!!!
وہ کونسا حق ھے جس نے اسے ماں بنا کر امر کر دیا۔۔۔۔۔
وہ کونسا حق ھے جس نے اس کی کوکھ سے ایک نسل کو جنم دیا ھے۔۔۔۔۔
وہ کونسا حق ھے جس پر اس کی گود کو پہلی درسگاہ کہا گیا ھے۔۔۔۔۔
ایک ایسی درسگاہ جہاں سے سیکھا گیا ایک ایک لفظ ہمیشہ یاد رکھا جاتا ھے اور کبھی نہیں بھولا جاتا۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عمر ابن خطابؓ کہ عدل کی اعلیٰ مثال اور مرادِ رسول کیسے مسلمان ہوئے کہ وہ ذات کون تھی، وہ مقام کس کے حصے میں آیا کہ جس کی آواز کی تلاوت سن کر عمر مراد رسول کا مقام پا گئے۔۔۔۔۔۔
وہ کون تھی جس نے امام ابو حنیفہ کو جنم دیا اور اپنے پیٹ میں رکھ کر تلاوت کی کہ امامِ حنیفہ پیدا ہوئے تو قرآن سنتے ہوئے اس دنیا میں آئے۔۔۔۔۔۔
کیا ہی حسین منظر تھا اسماعیل پانی سے پیاسا تھا ایڑھیاں رگڑ رہا تھا اور وہ ذات کون سی تھی جو اپنے بچے کی تڑپ نہ دیکھ پا رہی تھی تو کبھی صفاء تو کبھی مروہ کو دوڑتی کہ کہیں سے پانی مل جائے اور شیر خوار کی پیاس بجھ جائے۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہی حسین منظر تھا کہ اللہ نے اس حاجرہ کی تڑپ کو محفوظ کر لیا اور سب مسلمان اس عمل کو آج بھی دہراتے ہیں اور رہتی دنیا تک دہرائیں گے۔۔۔۔۔۔۔
کیا دلکش الفاظ تھے کہ سوال ہوا اے اللہ کے رسول محمد صلیٰ اللہُ علیہِ وآلہِ وسلم مجھ پہ سب سے پہلا حق کس کا ھے تو جواب آیا تمھاری ماں کا پھر پوچھا تو جواب آیا تمھاری ماں کا پھر سوال ہوا تو فرمایا تمھاری ماں کا یہ ماں کون ھے کونسی ذات ھے جسی یہ حق مل گیا۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون ھے جس کیلیے کہہ دیا گیا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ھے یہ ماں کونسی ذات ھے۔۔۔۔۔۔۔
کیا ہی بہترین ذرائع ھیں بخشش کے کہ اگر بچے کو جنم دیتے جان دے دی تو سیدھا جنت کا راستہ کوئی روک ٹوک کوئی سوال نہیں اور بچ گیی تو ایسے ہو گیی کہ سارے گناہ معاف. یہ جنت اور یہ گناہوں کی معافی کس ذات کیلیے ھے۔۔۔۔۔۔
اے اس قوم کی عورت اپنا حق پہچان تو معمار ھے اس مسلم امت کی۔۔۔
تجھے وہ مقام ملا جو کوئی نہ پا سکا۔۔۔
جن گھروں میں بیٹیاں تلاوت نہیں کرتیں وہاں کے بیٹے کبھی عمر ابن الخطاب نہیں بن پاتے۔۔۔۔۔
جہاں کی مائیں بچہ پیٹ میں لیکر تلاوت نہیں کرتیں اس قوم میں کبھی امام حنیفہ نہیں پیدا ہوتے ۔۔۔۔
اسماعیل جتنی ایڑھیاں رگڑ لے جب تک حاجرہ کی صفا و مروہ کے درمیان کی بے چین ادا پسند نہیں آتی تب تک چشمہ آب نہیں بہا کرتا۔۔۔۔۔۔
ان سب کے باوجود جانے کیوں مجھے بار بار یہ کہنے کو دل کر رہا ھے کہ عورت کے تو فرائض ہوتے ہیں حقوق تو برابری پر ملتے ہیں اور برابری کیلیے آج کی عورت…..
انداز حاجرہ کہاں سے لائے۔۔۔۔۔۔
آج کے مسلمان کوعمر ابن الخطاب کی بہن کی طرح قرآن سنا کر رسول کی مراد بننے کا ذریعہ کیسے بنائے۔۔۔۔۔۔
امام حنیفہ کو جنم دیتے ہوئے تلاوت کون کرے۔۔۔۔۔۔
ماں تو وہ عورت بھی بنتی ھے جو نکاح میں نہیں ہوتی۔۔۔۔۔
ماں تو وہ عورت بھی بنتی ھے جو حاجرہ کی بے چینی کو نہیں مانتی۔۔۔۔۔
ماں تو وہ عورت بھی بنتی ھے جو عمر کے قرآن سننے کا سبب نہیں بنتی۔۔۔۔۔
ماں تو وہ بھی بنتی ھے جو امام حنیفہ کو جنم دیتے وقت کسی تلاوت کو نہیں مانتی۔۔۔۔۔
آخر ماں بننے کیلیے اس حق کو لینے کیلئے نکاح کا عمل رکھا گیا اور یہ مقصد نکاح کیا ھے ۔۔۔۔۔۔
خطبہ نکاح کیوں پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔
اللہ کے رسولﷺ کہتے ہیں کہ مقصد ِنکاح یہ ہے کہ یہ عورت تمھارے حوالے کی جاتی ہے۔۔۔۔۔
تمھارے نفس کی تسکین کی خاطر۔۔۔۔۔
تسکین کا مطلب کیا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ، حضرت عبداللہ ابنِ عمرؓ کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!
تسکینِ نفس سے مراد رسولﷺ نے بیان کیا کہ جس طرح ایک نمازی مسجد سے نکلتا ہے تو دل مسجد میں چھوڑ جاتا ہے اسی طرح شوہر جب گھر سے نکلے تو دل گھر پہ چھوڑ کے جائے، یہ مقصد نکاح ہے۔۔۔۔۔۔
جب مقصدِ نکاح پورا ہو گا تو حقوق مانگنے نہیں پڑیں گے۔۔۔۔۔
کیونکہ یہ کام جو دل کی تسکین، نفس کی تسکین، یہ مشکل کام ہے۔۔۔۔۔۔
اس لیے اللہ نے عورت پر سے کمانے کا بوجھ اُٹھا لیا، کیونکہ یہ بڑا کام تھا۔ اور اس کام کیلیے مرد کو چن لیا اور حکم دے دیا کہ ہمیشہ پہلے اپنے فرائض کی طرف دیکھنا کہ تم سربراہ بنے ہو تو یاد رکھو تم سے تمھاری رعایا کے بارے باز پرس کی جائے گی۔۔۔۔۔۔
یہ وہ حقوق ھیں جو شاید نصیبوں والیوں کے نصیب میں آتے ہیں یہ اب اس قوم کی عورت کی مرضی ھے کہ اس نے یہ نصیب پا کر حقوق کو فرائض میں بدل لینا ھے اور اس امت کی رہنمائی کرنی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔