Wheat Flour

آٹا چینی بحران اور سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت

گزشتہ کچھ ہفتوں سے پاکستانی میڈیا پر آٹا چینی بحران پر ایف آئی اے کی انکوائری رپورٹ کی ایک بازگشت ہے۔ حکومت مخالف جماعتیں اور افراد حکومت پر پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے افراد کے اس میں ملوث ہونے پر ہنس رہےہیں اور طعنہ زنی کر رہے ہیں تو حکومتی ارکان اور ہمنوا اس بات پر اترا رہے ہیں اور بغلیں بجا رہے ہیں کہ یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ انکوائری رپورٹ شائع ہوئی ہے۔ وزیر اعظم اور حکومتی وزرا اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے اور جو ملوث ہوا اس کو کٹہرے میں لائیں گے لیکن اگر پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو حقیقت سامنے آجائے گی کہ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں با اثر افراد کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ی حکومت کو یا تو مصالحت کی پالیسی اپنا نی پڑے گی یا سرمایہ دار طبقہ اس رپورٹ کو قانونی موشگاگیوں میں الجھا کر باآسانی اپنے آپ کو پوتر ثابت کر لے گا۔
imran khan

سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی ہدف ہی سرمایہ دار کا تحفظ اور اس کے سرمایہ کی بڑھوتری ہے۔پوری دنیا میں جہاں جہاں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہیں یہی کھیل جاری ہے۔کارپوریٹ جمہوریت کے نام پر اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر اپنے من پسند افراد پر الیکشن میں سرمایہ کاری کرتے ہیں ۔ ان کے جلسوں اور پارٹیوں کے اخراجات اٹھاتے ہیں ۔ ان کی میڈیا کمپین کرتے ہیں اور ان کے کامیاب ہونے کی صورت میں اپنے مفادات کی پالیسیاں بنواتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام کی اس سے بھی ذیادہ بھیانک شکل ہے کہ سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقات خود ہی نام نہاد الیکشن کے ذریعے مقننہ کا حصہ بن کر پالیسی سازی کا حصہ بن جاتا ہے اور ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کے لیے پالیسیاں بناتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کا ذرا جائزہ تو لیں کہ کیا سینٹ ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں سرمایہ داروں ، جاگیردار وں یا چند نام نہاد مذہبی بہروپیوں کے علاوہ نام نہاد الیکشن یا فوجی ڈکٹیٹر شپ میں کوئی عام آدمی قانون ساز اسمبلیوں کا حصہ بنا ہے؟۔ یہی چند خاندان دہائیوں سے مختلف انداز سے حکومت کرتے آئے ہیں۔ اسی طرح انہی خاندانوں میں سے ہی بیوروکریٹ اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔ گویا پورا نظام ہی چند خاندانوں کی کھتونی بن کر رہ گیا ہے۔ان جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور اشرافیہ کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو ان کا سلسلہ نسب وہاں پہنچتا ہے جنہوں نے انگریز کے جابرانہ تسلط کو ہندوستان میں طول دینے میں مدد کی۔ قوم کے ساتھ غداریاں کی اور اس کے عوض انگریز سرکار سے بڑی بڑی جاگیریں اور جائیدادیں وصول کی ان ترینوں، دریشکوں، ٹوانوں،چوہدریوں اور مخدوموں کی ذرا تاریخ تو پڑھیں اور انگریز کے جانے کے بعد یہ کالے انگریز قوم پر مسلط کر دیے گئے۔ یہی خاندان مختلف پارٹیوں کے نام سے اب تک اس قوم پر مسلط ہیں ۔ ان کی دولتیں ، جاگیریں ، ملیں اور فیکٹریاں دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں تو قوم کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی ہے۔

جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان چند خاندانوں کی دولت اتنی کیسے بڑھ گئی تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ تمام کا تمام سسٹم ڈیزائن ہی ان کی دولت بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے۔ملک کے تمام وسائل ہی ان چند خاندانوں کے قبضہ میں ہیں۔ ایک ایک خاندان کے پاس سینکڑوں مربع زمینیں ہیں۔ان علاقوں کی اکثریتئ آبادی وسائل سے محروم ہونے کی بنا پر یا تو ان کی زمینوں پر مزارعت کرتی ہے یا ٹھیکے پر ان سے زمینیں لے کر سارا سال محنت کرتے ہیں اور سارے سال کی محنت کے نتیجہ میں کمائی ان کے حوالہ کر دیتے ہیں اور خود پیاز، لسی، چٹنی اور مرچوں سے روکھی سوکھی روٹی کھا کر زندگی کی سانسیں بحال رکھتے ہیں۔ان وڈیروں اور سرمایہ داروں کے بچے ہاورڈ، آکسفورڈ، کیمرج ، ایچی سن میں پڑھ کر ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنتے ہیں تو کاسبین کے بچے تعلیم سے محروم یا غیر معیاری سرکاری سکولوں سے پڑھ کر ان کے منشی(مینیجر ) بنتے ہیں۔دوسری طرف سرمایہ داروں کی فیکٹریاں مزدوروں کی محنت کے نتیجہ میں مہینوں میں دوگنی اور چوگنی ہو جاتی ہیں تو کام کرنے والے مزدور کی حالت زار بد سے بد تر ہوتی جاتی ہے۔ اور اگر کبھی کسی وجہ سے فیکٹریاں بند ہو جائیں تو بغیر کسی نوٹس کے ہزاروں ورکرز راتوں رات فارغ کر کے گھر بھیج دیے جاتے ہیں۔ کرونا وائرس کی وجہ سے نشاط ملز، کمبائینڈ ٹیکسٹائل اور اس طرح کی کئی فیکٹریوں نے ہزاروں ورکرز کو گھر بھیج دیا۔ ان کے حقوق کا کوئی ادارہ نہیں۔

سرمایہ دارانہ نظاموں میں ایشوز کی سیاست ہوتی ہے۔ ہر وقت ان سرمایہ داروں کے میڈیا سیلز کے ذریعے مختلف ایشوز ابھارے جاتے ہیں ۔ نام نہاد دانشور(دان۔شور) چیخ چیخ کر قوم کے افراد کا فکری استحصال کرتے ہیں اور چند دن بعد نیا تماشا شروع ہو جاتا ہے اور پہلا مسئلہ ختم۔سینکروں انکوائری کمیٹیز بنیں لیکن آج تک کوئی ایک رپورٹ حتمی نتیجہ تک پہنچی؟نظام کے اندر اتنے چور دروازے ہیں کہ اگر کوئی اخلاص کے ساتھ کام کریں بھی تو کرپٹ مافیا آسانی سے بچ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مشرف دور میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے کو استحصالی قرار دے کر دوبارہ معاہدہ پر کوشش کی گئی لیکن عدالتی نظام کے ذریعے حکومت چند سرمایہ داروں کے مقابلہ میں ہار گئی ۔اب دوبارہ معاملہ اٹھا ہوا ہے۔ اربوں کھربوں روپے سبسڈی کے نام پر بے ٹحاشا منافع کے علاوہ ہڑپ کیے گئے ہیں۔

حالات کا ادراک رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ آٹا چینی ،اور انرجی رپورٹس کچھ وقت کے بعد ردی کی ٹوکریوں کا حصہ بن جائیں گی۔ وزیراعظم اور چند حکومتی وزرا نے بڑے دعووں کے ساتھ کہا کہ 25 اپریل کو فرانزک آڈٹ کے ساتھ رپورٹ منظر عام پر لائی جائے گی لیکن کہاں ہے؟کوئی نیا شوشہ کھڑا کر دیا جائے گا اور یہ معاملہ چند مہینوں کے بعد عوام کے ذہنوں سے محو ہو جائے گا۔؟ آج تک کوئی انکوائری رپورٹ اور تحقیق حتمی نتیجہ تک پہنچی ؟

ضرورت اس امر کی ہے کہ افراد پر بحث کرنے کی بجائے نظام پر بحث کی جائے۔لیڈرز پر ڈسکشن کی بجائے جماعتوں پر بحث کی جائے۔ جماعتوں کےسٹرکچر، تربیتی نظام ،کارکنان کی تیاری اور سٹیٹس کو ختم کرنے پر بحث کی جائے۔ نظام کے ستونوں ، ان کے دائرہ کار ، ان کے کردار پر بحث کی جائے اگر یہ نہیں ہو گا تو یہ مروجہ نظام اسی طرح عوام کے مال کے لوٹنے والوں کا دفاع کرتا رہے گا، سرمایہ داروں، جاگیرداروں کی دولتیں بڑھتی رہیں گی، غریبوں کی کمائیاں اور عصمتیں لٹتی رہیں گی۔ رپورٹیں آتی جاتی رہیں گی اور یہ تماشا لگا رہے گا۔

تحریر: انجینئر محمد نواز خاں۔لاہور

اپنا تبصرہ بھیجیں