مارشل آرٹس ایک ایسا فن ہے جو صرف فن ہی نہیں ایک انسان کی شناخت کے ساتھ ساتھ اس کے تحفظ کی ضمانت بھی بن جاتا ہے اور اگر یہی فن کھیل کا روپ دھار لے تو یہ ہمیشہ اس کا نام کہلاتا ہے۔
کچھ دن پہلے ایسا ہی ایک کھیل دیکھنے کو ملا یہ کوئی عام کھیل نہیں بلکہ یو ایف سی میں لڑی جانے والی ایسی لڑائی ہے جس میں مکوں، ٹانگوں اور گھونسوں کا ایسا آزادانہ استعمال کیا جاتا ہے کہ وجود کے کسی حصے پہ چوٹ نہ لگنے کی یا نہ مارنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ یہ لڑائی تھی روسی مسلمان مارشل آرٹس باکسر خبیب نورماگومدوف اور آئیریش مارشل آرٹس باکسرمک گریگر کے درمیان۔
اس لڑائی کی اہمیت اس لئے بھی اس قدر زیادہ رہی ہے کہ آئیریش مارشل آرٹس باکسرمک گریگرمسلمانوں کے حوالے سے ایک خاص تعصب رکھتا ہے جس کا اظہار وہ بارہا بہت سے موقعوں پر برملا کر چکا ہے۔ جس میں اس کا ہر بار اور بار بار روسی مسلمان مارشل آرٹس باکسر خبیب نورماگومدوف کو کسی نہ کسی جگہ پر موسل کہہ کر پکارنا، اسے اس کے مذہب کی بنیاد پر شدید تنقید کا نشانہ بنانا، اس کے گھر والوں کو برا بھلا کہنا، خبیب نورماگومدوف کومسلمان ہونے کی وجہ سے کسی بھی لرائی میں حقارت سے دیکھ کر مذہبی طعنہ زنی کرنا مک گریگر کیلئے نہ صرف معمول تھا بلکہ پسندیدہ عمل بھی رہا ہے۔
وہ یہ سب اس لئے بھی کرتا رہا ہے کہ ایک تو وہ مسلمانوں سے، ان کے مذہب سے ایک خاص قسم کا تعصب رکھتا ہے اور دوسرا وہ اس زعم میں مبتلا رہا ہے کہ وہ ایک ناقابل شکست مارشل آرٹس فائیٹر ہے جسے شکست دینا کم از کم کسی عام انسان کا کام نہیں ہے۔
یہ لڑائی جب امریکی شہر لاس ویگاس میں طے پائی تو مک گریگر اس حسن ظن کو ساتھ لایا کہ وہ ناقابل شکست ہے اور ساتھ میں اس کی یہ خواہش بھی پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے کہ وہ ایک مسلمان کو مار کے نہ صرف شکست دے گا بلکہ اسے بتائے گا کہ مسلمان اسی قابل ہی ہیں لیکن لیکن لیکن۔
یہ کیا ہوا کہ کہ خود پہ ناز کرنے والا ایک گھمنڈی، متعصب اور خود کو ناقابل شکست گرداننے والا کھیل کے آغاز سے ہی خود کو نہ سنبھال سکا۔ خود کو ڈبل مکس مارشل آرٹس میں ناقابل شکست تصور کرنے والا وہ جو کسی جگہ پر کسی پریس کانفرنس میں اپنے سامنے خبیب نورماگومدوف کو پاکر اسے شراب پینے اور موسلو جیسے القابات سے نوازنے سے کبھی نہ رکا آج اس میدان میں اپنی تمام تر حسرتیں مٹانے سے قاصر کیوں ہو رہا ہے۔
اس کا کوئی بھی وار اس قدر جلد بازی اور خطاکاری میں ھی کیوں جا رہا ہے وہ بھی اس خبیب نورماگومدوف کے سامنے جسے وہ ایک چیونٹی سے زیادہ نہیں سمجھتا تھا جسے وہ بار بار یہی کہتا کہ تم تو میرے سامنے ایک چیونٹی سے زیادہ نہیں ہو، آج میں تمھیں مسل کے رکھ دوں گا اور دوسری طرف۔
روسی مسلمان مارشل آرٹ خبیب نورماگومدوف کے منہ سے صرف چند الفاظ ہی نکلتے کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے۔۔۔۔۔
یہ الفاظ اس مک گریگر کو مزید تکلیف دیتے اور وہ مزید اونچی آواز میں گردن پر انگوٹھے کا وار کر کے چلا اٹھتا آج تیری تاریخ ختم۔
لیکن یہ عجیب منظر دیکھنے کو ملا کہ خبیب نورماگومدوف کو چیونٹی کی طرح مسل دینے کا دعویدار تیسرے ہی راونڈ میں خبیب نورماگومدوف کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔ وہ سب کے سب دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، وہ بار بار چلا چلا کر کہنا آج چیونٹی کی طرح مسل دوں گا، وہ بار بار گالیاں دینا، تضحیکی، متعصبانہ مذہبی منافرت سے بھرے جملے کسنا، خاندان کو گالیاں دینا سب کا سب وہیں تیسرے ہی راونڈ میں دھرا رہ گیا جب خبیب نورماگومدوف نے مک گریگر کی گردن کو ایسی مضبوطی سے دبوچ لیا کہ مجبورا اسے بلندی میں ہاتھ لہرا کر اقرار کرنا پڑا کہ ہاں میں نے شکست مانی ہاں میں آج اپنے سب وعدوں، دعووں سمیت ڈھیر ہو گیا ہوں۔
خبیب نورماگومدوف کم اس وقت اپنے سر کو اوپر بلندی کی طرف کر کے دونوں ہاتھوں کو فضا میں لہرا کر شکر ادا کرنا ایک ایسا لمحہ تھا جس نے ایک اور محمد علی کلے کی یاد دلا دی۔