دنیا میں بہت سے ایسے کام ھیں جن کے دن مقرر ھیں جن کو منانے کا مقصد یہی ھوتا ھے کہ ان کی افادیت میں اضافہ کیا جائے، زیادہ سے زیادہ سماج میں اس بارے آگاہی دی جائے اور اسے بطور خراج عقیدت یاد رکھا جائے.
اسی طرح بہت سے ایسے کام ہیں جن کے دن ان کی افادیت کو دیکھتے ھوئے ان کی اھمیت کو زندہ رکھنے کیلئے منائے جاتے ھیں جیسے تعلیم کا دن، صحت کا دن، کھانے کا دن، زندگی کا دن، خوشی کا دن، آگاہی کا دن، ترقی کا دن، زبان کا دن، بھائی کا دن، بہن کا دن، ماں کا دن، باپ کا دن، خواتین کا دن.
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن بھرپور طریقے سے منائے جاتے ہیں اور ان دنوں کی افادیت کو زندہ رکھنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ھے. اسی طرح ہر سال 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ھے.
باقی تمام دنوں کی طرح پاکستان میں بھی یہ دن بھرپور طریقے سے منایا جاتا ھے جس میں ان خواتین کو بھرپور طریقے سے خراج تحسین پیش کیا جاتا ھے جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں کام کیا اور پاکستان کی ترقی میں نہ صرف بھرپور کردار ادا کیا بلکہ وہ وہ کارنامے سر انجام دئیے جنہوں نے دنیا کی تاریخ میں ان مٹ نقوش چھوڑے.
جیسے عرفہ کریم دنیا کی سب سے کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ تھیں اسی طرح پاکستان کی ائیر فورس میں مریم کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جو پاکستان کی پہلی خاتون پائیلٹ شہید ھیں، بینظیر بھٹو کے نام سے کون واقف نہیں نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی ممالک کی پہلی خاتون وزیراعظم رھیں.
اگر ھم خواتین کے رتبے کی بات کریں تو آج سے 1400 سال پہلے اسلام نے عورت کو وہ حقوق دے دئیے تھے جو آج تک دنیا کا کوئی مذہب، طبقہ یا فرد نہیں دے سکا کہ جب پیدا ھونے والی بچی کو پیدا ھوتے ھی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا، جب زمانہ جاھلیت میں شوہر اور بیوی کے مقدس رشتوں کو اپنی نظموں میں اس انداز میں پڑھا جاتا تھا کہ اپنی ہی بیوی کی تضحیک کی جاتی تھئ.
وہ وقت بھی سب کو پتہ ھے جب عورت کو صرف جنسی عمل کیلئے ھی استعمال کیا جاتا تھا لیکن جب آنحضورؐ نے تبلیغ شروع کی تو سب سے پہلے عورتوں کے حقوق پر بات کی آپ آنحضورؐ کا خطبہ حجتہ الوداع آج بھی اس بات کا گواہ ھے کہ اسلام نے سب سے زیادہ عورت کو حقوق دئیے ھیں اور اسے اس معاشرے با عزت مقام اور پہچان دی.
ہم کیوں بھول جاتے ھیں کہ انبیا کرام کو جنم دینے والی خواتین ھی ھیں، وہ بزرگ و برتر اصحاب کو جنم دینے والی خواتین ھی ھیں. صفا مروہ کی پہاڑیاں رہتی دنیا تک اس بات کی گواہی دیں گی کہ ان پر دوڑنے والی حضرت حاجرہ ایک عورت تھیں جو اپنے بچے کی پیاس میں اتنی تڑپیں کہ دوپہاڑوں پر سات بار دوڑیں کہ کہیں سے پانی مل جائے اوراللہ رب العزت نے ان کی اس ادا کو رہتی دنیا تک امر کر دیا.
ہم کیوں بھول جاتے ھیں کہ عمر ابن الخطاب حضرت عمر رضي الله عنه مراد رسول ضرور تھے لیکن مراد رسول کی تکمیل کیسے ہوئی کہ جب غصے میں تلوار اٹھا کر نکلے اور سوچا آج اس محمد کا ھی قلع و قمع کر دوں لیکن کسی کو کیا پتہ تھا کہ وقت بدلنے والا ھے راستے میں کسی نے کہہ دیا پہلے اپنی بہن کو تو جا کر دیکھو جو اسی محمد پر ایمان لے آئی ھے.
عمر اسی تلوار سے بہن کے پاس جا پہنچے جو قرآن مجید کی تلاوت کر رھی تھیں اور انہیں بے تحاشا تشدد کا نشانہ بنایا اس حد تک کہ ان کا جسم لہو لہان ھو گیا جب رکے تو اسی وقت بولے اچھا تم وہ تو سناو جو تم پڑھ رھی تھی.
بتائیے اس سے بڑا اور کوئی مقام ھو گا کہ عمر ابن الخطاب کے اسلام کی قبولیت میں بھی پہلی سیڑھی ان کی بہن ھی بنیں جو کہ ایک خاتون تھیں. حضرت فاطمہ زھرہ رضی اللہ تعالی عنہہ کو جنت میں عورتوں کی سربراہ کا مقام ملا.
پاکستان میں ہر سال عورتوں کے حقوق پر سیمینار ہوتے ہیں واک کی جاتی ہیں لیکن پچھلے دو سالوں سے پاکستان میں ایک بے ھنگم سا ھنگامہ برپا کر دیا گیا ھے جس کا نام عورت مارچ رکھا گیا ھے. پہلے تو یہ سمجھا گیا کہ اس دن عورتوں کے مسائل دیکھے جائیں گے لیکن یہ بات سب کیلئے حیران کن تھی جب پچھلے سال عورت مارچ کے نام پر ایک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا گیا.
بہن اور بھائی جیسے مقدس رشتوں کی تذلیل کی گئی، والد کو بیٹی کے سرپرست کی جگہ ایک ظالم اور جابر دیکھانے کی کوشش کی گئی اور اس سب کی ابتدا ایک بہت ھی بھونڈے نعرے ” میرا جسم میری مرضی ” سے کی گئی جو بذات خود یورپ کی ایک تحریک ” My Body My Choice ” کا چربہ ھے جس کا مقصد یورپ میں ان خواتین کو اسقاط حمل کا حق دینا تھا جو نکاح کے بغیر 18 سال سے پہلے جنسی تعلقات کی بنیاد پر حاملہ ھو جاتی تھیں.
پاکستان میں یہ سب شروع کرنے کے دو بڑے مقاصد ھیں جن میں سرفہرست اپنے دین اسلام سے دوری اور دوسرا پاکستان کے خاندان نظام family unit کو توڑنا ھے. اس مقصد کو تکمیل تک پہنچانے کیلئے پدرشاہی سے چھٹکارے کا نعرہ لگایا گیا ھے جس کا مطلب ہر جگہ عورت پر مرد کی حکمرانی ھے وہ حکمرانی کہیں والد کہیں بھائی اور کہیں شوھر کی صورت میں ھے اور یہ وہ رشتے ھیں جو عورت کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ھیں.
وہ باپ جو بیٹی کی پیدائش سے ھی اس کی کامیابی اور شادی تک کے سپنے سجا لیتا ھے وہ کیسے اپنی بیٹی کا دشمن ھو سکتا ھے؟ وہ بھائی جو بہن کیلئے پیار اور شفقت کا نام ھے وہ بھائی کیسے اپنی بہن کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ھے؟
وہ شوھر جو اپنی بیوی کے نان و نفقہ سے لیکر اس کی ھر ضرورت کا نہ صرف ذمہ دار ھے بلکہ مذھبی و قانونی لحاظ سے پابند ھے. وہ بیٹا جو اپنی ماں کے قدموں تلے جنت ڈھونڈتا ھے آج ان چند نام نھاد عورت مارچ کے علمبرداروں نے اس رشتے کو بیچ چوراھے بے عزت کر دیا.
پچھلے سال جو نعرے لگائے گئے وہ تو حواس باختہ تھے ھی لیکن اس سال پچھلے سال سے بھی بڑھ کر بینرز، پوسٹرزاٹھائے گئے جن میں نہ صرف محرم رشتوں کی تذلیل کی گئی بلکہ مرد کو اس قدر تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کہ اسے اس معاشرے کا سب سے گندہ کردار دیکھانے کی کوشش کی گئی.
پاکستان میں یہ سب اس لئے کیا جا رھا ھے کہ گھر کی چار دیواری میں بیٹھی عورت، اپنے گھر کیلئے دفاتر میں کام کرتی عورت کو اس قدر باغی بنا دیا جائے کہ وہ تمام رشتوں کو بالائے طاق رکھتے ھوئے سڑکوں پر نکل آئے.
اس کے نزدیک نکاح جیسے مقدس فرض کی کوئی اھمیت نا رھے، طلاق لینا اس کیلئے معیوب نہ ھو، کسی غیر مرد کے ساتھ بیٹھنا اور سونا اس کیلئے فخر کی بات ھو اور یہ سب کچھ پاکستان سے باھر این جی اوز سے پیسہ لیکر کیا جا رھا ھے.
اس حوالے سے ریاستی اداروں کو سوچنا ھو گا کہ یہ 36 طلاق یافتہ عو رتوں کا ٹولہ پاکستان میں مرد و زن کو حقوق کے نام پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کیوں لانا چاھتا ھے.