لا الہ کے دیس میں کشور حسین پر
المیہ ھی المیہ ھے پاک سر زمین پر
آج پاکستان میں ان پڑھے لکھوں کی حرکتیں دیکھ کر ایک بات کا تو یقین ھو گیا ھے کہ پڑھ لکھ کر جاھلوں والی حرکتیں کرنے سے بہتر جاھل ھی رھنا ھے۔
پاکستان میں آج تک کبھی کوئی کام کسی نے سیدھا کرنے کی کوشش کی ھی نھیں ھے پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ھے جسے یہ اعزاز حاصل ھے کہ اس کا ھر ادارہ اپنے آپ کو طرم خان کی نسل کا خالص وفادار سمجھتا ھے۔
پاکستان میں لوگوں کی عددی تعداد کا سب سے بڑا ادارہ آرمی ھے۔
اس ادارے کی اتنی غلطیاں ھیں کہ انھیں لکھنا شروع کریں تو کاغذ تھوڑے پڑ جائیں کہیں پر مادر ملت کی کردار کشی کا دھبہ ھے تو کہیں جمھوریت کی بساط لپیٹنا ھے کہیں پر آئی جے آئی کا دھبہ ھے تو کہیں پر پرویز مشرف جیسا نایاب مگر بدنما نگینہ۔۔۔۔
گو کہ ان کو غلطیاں کہہ لیں یا کوئی نام دے دیں لیکن یہ سب اکیلے تو سرزد نھیں ھوئیں آخر ان غلطیوں کو سرزد کرنے اور اپنی بھرپور معاونت دینے میں جمھوریت کے ناکام و نامراد وارثوں کا کردار بھی شامل رھا ھے۔۔۔۔۔۔
پارلیمنٹ پاکستان کا ایک ایسا ادارہ ھے جو بظاھر تو خود کو خالص عوامی ترجمانی کا تن تنھا مالک گردانتا ھے لیکن اس نے آج تک جتنا عوام کو ڈنڈا دیا ھے شاید ھی کسی نے دیا ھو۔ وہ ڈنڈا ھمیشہ غربت، بے روزگاری، معاشی بدحالی، کرپشن، اقربا پروری، کوٹہ سسٹم، غیر ملکی قرضوں کی صورت میں دیا گیا اور آج تک دیا جا رھا ھے اور بدقسمتی سے ھمیشہ جمھوریت کا لولی پاپ دے کر اس عوام نامی مجہولوں کے ھجوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر رکھا۔۔۔۔۔۔
مشرف دور میں جس تیزی سے الیکٹرونک میڈیا کو تقویت دی گئی اور ھر ذھنی مریض نے اپنے پیسے کی طاقت سے اپنے باپ، ماں، ماما چاچی ساس، داشتہ و معشوقہ کے نام اور اس کی یاد میں کہیں نیوز کے نام پر، کہیں پکوان کے نام پر، کہیں انٹرٹینمنٹ کے نام پر، کہیں پلس اور کہیں مائینس کی جمع تفریق سے چینل بنائے اس کی بھی مثال ندارد ھے انھی چینلز کو دیکھ لیں انھوں نے باقی بچی ماندہ عوام کو وہ دیکھایا جو ان کا حق بھی نہ تھا اور آج وہ سب اس عوام کا ورثہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔
پھر سوشل میڈیا آ گیا اور اس سوشل میڈیا نے سب سے پہلے تو الیکٹرانک میڈیا کی وراثتی بدمعاشی کو ختم کیا اور ایسا ختم کیا کہ ان کے ھوش بھی اڑا دئیے اور پھر ھوا یوں کہ سوشل میڈیا بھی بے لگام گھوڑے کی جگہ کھوتے کی طرح آزاد و بے غیرت ھو گیا۔ نہ کسی کی ماں بچی نہ کسی کی بہن نہ کسی کی عزت اور نہ کسی کے باپ کی پگڑی اس سوشل میڈیا نے جھاں شعور دیا بولنے کا حق دیا سچ کو سامنے رکھا اور الیکٹرونک میڈیا کی بدمعاشی کو ختم کیا وھیں یہ خود اب ایک ناسور کی شکل اپنا چکا ھے جسے اب کتے والا پٹہ ڈالنے کی اشد ضرورت ھے۔۔۔۔۔۔۔
اس ملک کا دیندار طبقہ جسے مولوی، علماء، عالم کہا جاتا ھے اس طبقہ نے ھمیشہ دین کا نام لیا اور اپنا پیٹ آگے رکھ دیا کہیں دیوبندی بنا دیا تو کھیں بریلوی ، کہیں شیعا تو کھیں اھلحدیث لاکھڑا کیا۔ دین کو دین تو دور مذھب بھی نہ رھنے دیا۔۔۔۔۔۔۔
اب آ جاتے ھیں پاکستان کے سب سے طاقتور ادارے کی طرف جو صرف قلم چلانا جانتا ھے اس کا قلم چل جائے تو جمھوری صدر پھٹے پہ چڑھ جاتا ھے اور اگر اس کا قلم چل جائے تو یہ ایک لاکھ کے مچلکوں کی بے غیرتی کر کے راؤ انوار جیسے سیاہ ستدانوں کے دلال کو چھوڑ دے۔ اس کا قلم چلے تو یہ شک کے فائدے دیتا جائے اور اس کا دل کرے تو اپنے پیٹی بند بھائیوں کیلئے خدیجہ کے مجرم کو پہلے مجرم پھر ملزم اور پھر باعزت بری بنا دے اس کا من چاھے تو سیاہ ستدانوں کا دلال بن کر جسٹس قیوم بن جائے اور جی چاھے تو نظریہ ضرورت کی راگ الاپنا شروع کر دے۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کو اس ملک کے ھر ادارے نے وہ رکھیل بنا رکھا ھے جھاں چاھیں تو اکیلے کمرے میں اس رکھیل کو تھپڑ مار مار کے ننگا ھونے کا کھیں اور اگر چاھیں تو بھری محفل میں مائیک کے سامنے کہیں چل اب کپڑے اتار۔۔۔۔۔۔۔
یہاں کوئی اپنی حدود میں رہ کر شاید کام کرنا سیکھا ھی نھیں ھے اس لئے تو یھاں کہیں پر ” یہ جو دھشت گردی ھے اس کے پیچھے وردی ھے ” کا نعرہ لگتا ھےتو کہیں پر ٹوئیٹر “نوٹس از ریجیکٹڈ” کا سھارہ بن جاتا ھے۔
جھاں کا وزیراعظم ملک کی لوٹی دولت واپس دینے کی بجائے ڈھٹائی اور بے شرمی سے کہتا پھرتا ھے کہ “مجھے کیوں نکالا بتاؤ مجھے کیوں نکالا” تو اس کے بیٹے اس ملک کا پیسہ ڈکار کر کہتے ھیں اے پاکستانی عوام میں تو تیرے ملک کا شھری ھی نھیں تیری کیا اوقات کہ تو مجھ سے اپنے پیسے کا پوچھے۔
جھاں میڈیا جعلی مقابلے کروائے اور پھر ان کی کوریج کرے اور پھر اپنی ریٹنگ بڑھائے، دل کرے تو ھاتھ میں سگھار پکڑ کر ملک کے سب سے بڑے لینڈ مافیا کے حق میں پروگرام کرے اور دھڑلے سے کرے۔
جس کا مولوی حق گوئی کے خطبہ سے زیادہ اپنے مسلک کا خطبہ زیادہ دے
جس کی عدلیہ کا جج اپنی آئینی لائن کو تو نھیں دیکھ سکتا لیکن وکیلوں کی بھری محفل میں سب کے سامنے نانا پاٹیکر بن کر اپنے آپ کو مظلوم بنا کر اپنے ھی ملک کے دوسرے ادارے پر کیچڑ اچھالے اور ساتھ یہ بھی گلہ کرے کہ مجھے اس بنچ میں شامل کیوں نھیں کیا۔
اس ملک میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لا الہ کے دیس میں کشور حسین پر
المیہ ہی المیہ پاک سرزمین پر
دور تک اندھیرے ھیں یاس کے بسیرے ھیں
گھات میں لٹیرے ھیں غاصبوں کے ڈیرے ھیں
کیسی رات چھاگئی صبح آفرین پر
المیہ ہی المیہ پاک سرزمین پر
اھل زر کا راج ھے جبر تخت و تاج ھے
ظلم کا سماج ھے روگ لا علاج ھے
ظلم کا یہ سلسلہ تاق ھے جبین پر
المیہ ھی المیہ پاک سرزمین پر
خوف ھے ہراس ھے تشنگی ھے پیاس ھے
چھت ھے نا لباس ھے چُور چُور آس ھے
ھائے لٹ گیا یقین مرکز یقین پر
المیہ ہی المیہ پاک سرزمین پر
منتشر خیال ھیں خواب پائے مال ھیں
لوگ پُر ملال ھیں غم سے یوں نڈھال ھیں
گر پڑی ھو جیسے چھت زیر چھت مکین پر
المیہ ھی المیہ پاک سرزمین پر
در بدر جوان ھیں قوم کی جو آن ھیں
کل کے پاسبان ھیں ذہن بدگمان ھیں
بند آرزو کے در ہوگئے ذہین پر
المیہ ھی المیہ پاک سرزمین پر
شہر ھے یا گوٹھ ھے نظریوں کی اوٹ ھے
نیتوں میں کھوٹ ھے ٹھوکریں ھیں چوٹ ھے
رھزنی کا ھو گمان اپنے ھم نشین پر
المیہ ھی المیہ پاک سرزمین پر
بھیڑیے ھیں رو برو بہہ رہا ھے کوں بہ کوں
اپنا خون جوں بہ جوں تیر زن چہار سو
سب کے سب جھپٹ پڑے آج اھل دین پر
المیہ ھی المیہ پاک سرزمین پر
سامرآجیوں کی جنگ پورا ملک خون رنگ
عقل رہ گئی ھے دنگ حکمران کی امنگ
جان و دل نثار ھیں آج ایک لعین پر
المیہ ہی المیہ پاک سرزمین پر
لاالہ کے دیس میں کشور حسین پر
المیہ ہی المیہ پاک سرزمین پر