پرویز مشرف نے ریاست کو قبضے میں لیکر غیر آئینی حکومت بنا کر عوام کو کئی نان ایشوز کے گرد گمایا۔غیرسیاسی ذہن سازی کیلئے روشن خیالی کے نام پر مرا تھن ریس اور کئی ڈھکوسلے کئے گئے۔مارشل لاء کو جمہوریت کی چھتری میں چھپانے کیلئے ملک بھر سے ایم این ایز اور ایم پی ایز خرید کر اسمبلیاں تخلیق کیں۔ظفر اللہ جمالی اور شوکت عزیز کو وزیر اعظم بھرتی کیا۔
ملکی مسائل حل کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ڈرامہ بازیاں کرکے لوٹ کھسوٹ کا دھندہ جاری رکھا۔وقت گزر گیا۔پرویز مشرف طاقت ور ہونے کے باوجود عبرت کا نشان بنے دربدر ہیں۔
عوام کی امنگوں سے کھیلنے والے اور فریب،دھوکہ دہی سے حکومت کرنے والوں کے ساتھ تاریخ بدترین سلوک کرتی ہے۔عوام کو بے وقوف بنانے اور سمجھنے والوں کو تاریخ مار دیتی ہے۔
عوام کا اجتماعی شعور بخوبی سمجھتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور افسانہ کیا ہے۔تاریخ کا انمول سبق ہمارے سامنے ہے کہ اسلام کو ہتھیار بنا کر اقتدار کو طول دینے کی بہودہ حرکت کا مرتکب مرگیا اور عوام کو طاقت کا سرچشمہ قرار دینے والا بھٹو آج بھی زندہ ہے اورتاریخ کے افق پر ہمیشہ چمکتا دمکتا رہے گا۔زندہ رہنا اسی کو کہتے ہیں۔ترقی کا انحصار فکر پر ہوتا ہے۔
فکری ترقی سے معاشی و سماجی اور ملکی ترقی کی منازل طے ہوتی ہیں۔ڈھکوسلوں سے ہرگز نہیں۔
تاریخ پھر دہرائی گئی ہے۔ ایم این ایز اور ایم پی ایز پھر خریدئے ہیں۔جن کی اپنی زبان گنگ ہے۔حکم کے غلام ہیں۔پہلے وزیراعظم بھرتی کیا گیا تھا۔اب کی بار تخلیق کردہ ریموٹ کنٹرول وزیر اعظم ہے۔جس کی پہلے بھرپور مارکیٹنگ کی گئی اور برانڈ بنا کر قابل قبول بنایا اور مسلط کردیا گیا ہے۔
خود تراشدہ اور مسلط کئے وزیراعظم سے پرانے کھیل کو نئے اورسابقہ کھلاڑیوں کے ذریعے کھیلا جا رہا ہے۔وہی نان ایشوز، احتساب کے نعرے،کرپشن کا خاتمہ،زبانی کلامی ملکی ترقی کے دعوے اور عملی طور پر ملک کا وزیر اعظم اور ریاست کا سربراہ مصیبت میں مبتلا عوام کو ڈرامے دیکھنے کی ہدایت کر رہا ہے۔
شاید انہیں یہ بتایا گیا ہے کہ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے یاعوام شعور نہیں رکھتے ہیں۔
عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے اور نہ ہی عوام شعور سے عاری ہیں۔لوگ بے دھڑک اظہار کر رہے ہیں۔عوام کو معلوم ہے کہ وزیر اعظم بے بس ہے۔لاچار ہے۔ریموٹ کنٹرول ہے۔وزراء وزیر اعظم کے ساتھ نہیں ہیں۔ایم این ایز وزیر اعظم کی نہیں سنتے ہیں۔عوام سب جانتے ہیں وزیراعظم کو چلایا جارہا ہے۔یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیراعظم کو ن چلا رہا ہے۔
عمران خان صاحب! ایوب خان،ضیاالحق اور پرویز مشرف جیسے طاقتور ڈکٹیٹروں کا اقتدار کا سورج بھی ڈوب گیا۔
آپ تو تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ذرا غور فرمائیں ماضی کے ڈکٹیٹروں کو تاریخ کن الفاظ میں یاد کرتی ہے۔تاریخ میں زندگی عوام کو حق دینے سے ملتی ہے۔عساکر کی تابعداری سے ق لیگ بنتی ہے۔تاریخ نہیں بنائی جا سکتی ہے۔
عمران خان صاحب!کوئی انتخابی وعدہ،کوئی دعوی پورا نہیں ہوسکا ہے بلکہ الٹا ملک مقروض ہوا ہے۔غربت اور مہنگائی کی شرح بڑھی ہے۔
کرونا کے بحران میں آپ لاک ڈاون کا فیصلہ کرنے میں عاجز نظر آتے ہیں۔بے بسی اور بچارگی عیاں ہے۔اس بات سے آپ بھی باخبر ہیں اور آپ کیٹائیگرز بھی جان چکے ہیں۔ عوام تو خیر بہت ہی جان چکے تھے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ یہ کہانی ہی جعلی اور دونمبر ہے۔ بھانڈہ بیچ چوراہے پھوٹ چکا ہے۔عمران خان صاحب!محمد بن قاسم بننے سے بہتر ہے ٹیپو سلطان بن جائیں۔